Ad Code

Responsive Advertisement

ہمارے عمر رضی اللہ عنہ کا انصاف شہادت عمر سپیشل پوسٹ The martyrdom of our Umar (RA) special post

ہمارے عمر رضی اللہ عنہ کا انصاف  شہادت عمر سپیشل پوسٹ The martyrdom of our Umar (RA) special post

 ہمارے #عمر رضی اللہ عنہ کا انصاف

شہادت #عمر سپیشل پوسٹ


سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا، اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے، 

 سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا، 

 سیدنا عباس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے، پوچھا یہ کس نے اتارا، 

جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا، 

سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا، 

چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں، 

 امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں، کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے، یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے، 

 سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے، لہذا مجھے انصاف چاہیے، 

 چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا، 

قاضی  نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا، 

 بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے، سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا، 

 آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟ 

 سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے یہاں رسول پاک نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول پاک نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا، 

ابی بن کعب نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس، 

 سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں، 

یہ سنتے ہی سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، اپنا پیارا نبی یاد آ گیا،  اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا، 

 عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا، 

 سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے، 

 آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں، 

چشم کائنات نے دیکھا! 

 وقت کا حاکم دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ہوئے تھے، سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا، 

 وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا، 


مسند ' الامام أحمد بن حنبل ، 1 / 210، الحديث رقم : 1790

*میدانِ_نہاوند اور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ*


امیرالمومنین، حامی دین متین، غیظ المنافقین، امام العادلین، خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالار ( کمانڈر) بناکر سر زمین *نَہاوَنْد* میں جہاد کے لئے روانہ فرمایا۔ سپہ سالارِ لشکرِ اسلامیہ حضرت سیدنا سارِیہ رضی اللہ عنہ کفار سے برسر پیکار تھے کہ وزیر رسولِ انور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی شریف کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے اچانک اِرشاد فرمایا:

*یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل* (اے ساریہ! پہاڑکی طرف پیٹھ کرلو) مسجد میں موجود لوگ حیران رہ گئے کہ لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ تو مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل دور سر زمین نہاوند میں *جہاد* میں مصروف ہیں، آج امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے انہیں کیوں اور کس لئے پکارا ؟ اس الجھن کی سلجھن تب ہوئی جب وہاں  سے *فاتحِ نَہاوَنْد* حضرت سیدنا ساریہ رضی اللہ عنہ کا نمائندہ آیا اور اس نے خبر دی کہ میدانِ جنگ میں کفار سے مقابلے کے دوران جب ہمیں شکست کے آثار نظر آنے لگے تو اتنے میں آواز آئی: *یَاسَارِیَۃُ_الْجَبَل* یعنی اے سارِیہ! پہاڑکی طرف پیٹھ کر لو۔ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تو امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی *آواز* ہے پھر فوراً ہی اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پُشت کرکے صف بندی کا حکم دے دیا، اسکے بعد ہم نے کفار پر زور دار یلغار کردی تو ایک دم جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسلامی لشکر نے کفار کی فوجوں کو روند ڈالا اور اسلامی افواج کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر *کفار کا لشکر* میدان سے بھاگ گیا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔


*تین اہم نکات:*

١۔ خلیفہ دوم امیرالمومنین ناصرِ دینِ مبین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر نَہاوَنْد کے میدانِ جنگ اور اُس کے احوال و کیفیات کو دیکھ لیا اور پھر لشکر اسلامیہ کی مشکلات کا حل بھی فوراً لشکر کے سپہ سالار کو بتادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل اللہ کی قوت سماعت و بصارت (سننے اور دیکھنے کی طاقت) کو عام لوگوں پر ہرگز قیاس نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کریم نے اپنے محبوب بندوں کے کانوں اور آنکھوں  میں عام انسانوں سے بہت ہی زیادہ طاقت رکھی ہے اور ان کی آنکھوں، کانوں اور دوسرے اعضاء کی طاقت اس قدر *بےمثل و بےمثال* ہے اور ان سے ایسے ایسے امور سر انجام پاتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر کرامت کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔


٢۔ وزیرِ شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، بنیادِ ملتِ اسلامیہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی آواز سینکڑوں میل دور نہاوند کے مقام پر پہنچی اور وہاں سب اہل لشکر نے اس کو سنا۔


٣۔ جانشین رسول مقبول، امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کی برکت سے اللہ کریم نے اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح و نصرت عنایت فرمائی۔


*حوالہ جات:*

١. مِرقاۃ المفاتیح ج ۱۰ ص ۲۹۶ حدیث ۵۹۵۴

٢. تاریخ دمشق لابن عساکر ج ۴۴ / ص ۳۳۶

٣. تاریخ الخلفاء ص ۹۹

٤. مِشکوٰۃ المصابیح ج۴ / ص۴۰۱ حدیث ۵۹۵۴،

٥. حجۃ اللّٰہ علی العالمین ص ٦١٢

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا۔

طبيب نے كہا: 

اے امير المؤمنين! وصيت كر ديجيے اسليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا: 

ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جن كو رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى، جس كو اللہ، اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا۔۔۔ 


حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا،  حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں ، كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟ 

حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے  لگے : 

اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے، ميں اس كو مرتے دم تك كسى كو نہيں بتا سكتا۔۔۔ 

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے: حذيفہ! بلاشبہ يہ رسول اللہﷺ كا راز ہے ، بس مجھے اتنا بتا ديجيے كہ رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين كے جدول ميں شمار كيا ہے يا نہيں؟ 

حذيفہ كى ہچكى بندھ گئى ، روتے ہوئے كہنے لگے: اے عمر! ميں صرف آپ كو يہ بتا رہا ہوں اگر آپ كے علاوہ كوئى اور ہوتا تو ميں كبھى بھى اپنى زبان نہ كھولتا، وہ بھى صرف اتنا بتاؤں گا كہ رسول اللہﷺ نے آپ كا نام منافقين كى لسٹ ميں شمار نہيں فرمايا۔


سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے بيٹےعبداللہ سے كہنے لگے: عبداللہ اب صرف ميرا ايك معاملہ دنيا ميں باقى ہے۔۔۔ پِسر جانثار كہنے لگا: اباجان بتائيے وہ كون سا معاملہ ہے؟ 

سيدنا عمر رضى اللہ گويا ہوئے  بيٹا، میں رسول اللہ اور ابوبكر رضى اللہ عنہ كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہوں۔۔۔ 


اے ميرے بيٹے! ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب كرو كہ عمر اپنے ساتھيوں كے پہلو ميں دفن ہونا  چاہتا ہے۔۔۔  ہاں بيٹا، عائشہ رضى اللہ عنہا كو يہ نہ كہنا كہ امير المؤمنين كا حكم ہے بلكہ كہنا كہ آپ كا بيٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے۔۔۔ 

ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كہنے لگيں، ميں نے يہ جگہ اپنى قبر كے ليے مختص كر ركھى تھى، ليكن آج ميں عمر كے ليے اس سے دستبردار ہوتى ہوں۔۔۔ 


عبداللہ مطمعن لوٹے اور اپنے اباجان كو  اجاز ت کا بتایا، سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے رخسار كو زمين پر ركھ ديا، آداب فرزندى سے معمور بيٹا آگے بڑھا اور باپ كى چہرے كو اپنے گود ميں ركھ ليا ، باپ نے بيٹے كى طرف ديكھا اور كہا اس پيشانى كو زمين سے كيوں اٹھايا۔۔۔۔

اس چہرے كو زمين پر واپس ركھ دو، ہلاكت ہوگى عمر كے ليے اگر اس كے رب نے اس كو قيامت كے دن معاف نہ كيا۔۔۔ ! رحمك اللہ يا عمر 


سيدنا عمر رضى اللہ عنہ بيٹے عبدأللہ كو يہ وصيت كركے اس دار فانى سے كوچ كر گئے: 

جب ميرے جنازے كو اٹھايا جائے اور مسجد نبوى ميں ميرا جنازہ پڑھا جائے، تو حذيفہ پر نظر ركھنا كيونكہ اس نے وعدہ توڑنے ميں تو شايد ميرا حيا كيا ہو، لیکن دھيان ركھنا وہ ميرا جنازہ بھى پڑھتا ہے يا نہيں؟ 


اگر تو حذيفہ ميرا جنازہ پڑھے تو ميرى ميت كو رسول اللہﷺ كے گھر كى طرف لے كر جانا، اور دروازے پر كھڑے ہو كر كہنا : يا ام المؤمنين! اے مومنوں كى ماں، آپ كے بيٹے عمر كا جسد خاكي آيا ہے۔۔۔  ہاں يہاں بھي ياد ركھنا امير المؤمنين نہ كہنا عائشہ مجھ سے بہت حياء كرتى ہے۔۔۔  اگر تو عائشہ رضى اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما ديں تو ٹھيك، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفنا دينا۔ 


عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ كہتے ہيں ابا جان كا جنازہ اٹھايا گيا تو ميرى نظريں حذيفہ پر تھيں، حذيفہ آئے اور انھوں نے اباجان كا جنازہ پڑھا۔۔۔ ميں يہ ديكھ كر مطمعن ہوگيا، اور اباجان كى ميت كو عائشہ رضى اللہ عنہا كے گھر كى طرف لے كر چلے جہاں اباجان كے دونوں ساتھى آرام فرما تھے۔۔ 

دروازے پر كھڑے ہو كر ميں نے كہا: يا أمّنا، ولدك عمر في الباب هل تأذنين له؟

اماں جان! آپ كا بيٹا عمر دروازے پر كھڑا ہے، كيا آپ اس كو دفن كى جازت ديتى ہيں؟ 

اماں عائشہ رضى اللہ عنہا نے كہا: مرحبا ، امير المؤمنين كو اپنے ساتھيوں كے ساتھ دفن ہونے پر مبارك ہو۔ رضى اللہ عنہم ورضوا عنہ


اللہ راضى ہو عمر سے جنہوں نے زمين كو عدل كے ساتھ بھر ديا ، پھر بھى اللہ سے اتنا زيادہ ڈرنے والے، اس كے باوجود كہ رسول اللہﷺ نے عمر كو جنت كى خوشخبرى دى۔۔

Post a Comment

3 Comments

Close Menu